(صفورا سلطانہ، لالہ موسیٰ)
آج جو تحریر لکھ رہی ہوں وہ نماز اور ذکر کی فضیلت کے بارے میںہے۔ ہمارا معاشرہ بیوہ اور طلاق یافتہ عورتوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں عورت بالکل تنہا رہ جاتی ہے۔ اپنے بہن بھائی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں کہ سب کی اپنی اپنی مصروف زندگی ہے کسی کے پاس کسی کے لیے کوئی وقت نہیں۔ ہمارے معاشرے کے بہت سے مرد اندر سے وہی انسان نما بھیڑیے ہیں اور عورت کو جو چیز بچاتی ہے وہ ذکر اور نماز ہے۔ حکیم صاحب! آج میں آپ کو اپنی ذاتی زندگی کے کچھ حقائق بتاتی ہوں شائع کروائیں کہ یہ امر یقینا عورت کا مسئلہ ہے۔
شروع سے ہی گھر کا ماحول مذہبی تھا، گھر میں نماز پنجگانہ کے بارے میں بڑی سختی رہی ہے۔ والدہ صاحبہ اس بچے کو ناشتہ اور کھانا ہی نہیں دیتی تھیں جو نماز میں سستی کرتا تھا، نتیجتاً یہ ہوا کہ ہم پانچوں بہن بھائی 12,10 سال کی عمر سے ہی نماز پنجگانہ اور روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کے عادی ہو گئے اور الحمد للہ اب تک قائم ہیں۔ پانچوں بہن بھائی دینی اور دنیاوی زندگی میں خوش ہیں۔ البتہ میرے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ جس عمر میں لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے مجھے اس عمر میں دو بچوں کے ساتھ طلاق ہوگئی۔ بڑی ہی خطرناک پوزیشن تھی۔ مگر ایک بات تھی۔ میراحال چاہے جیسا بھی ہو، نماز اور ذکر میں سستی نہیں کی بلکہ اس دکھ کی وجہ سے میری نمازیں لمبی ہوگئیں اور ذکر میں طوالت آگئی اور اس میں کبھی میں نے ناغہ یا سستی نہ برتی۔ بلکہ میں نے تہجد کو بھی اپنا معمول بنا لیا۔ زندگی میں جب اکیلے ہوں تو زندگی کے سارے سامان بھی خود ہی کرنے پڑتے ہیں۔ جب بھی کبھی کسی مرد کوکسی ضرورت کے کام کے لیے فون کیا تو بلاوجہ ہی عاشق بن بیٹھتا۔ میں تنہائی میں اللہ کے سامنے خوب روتی کہ اے اللہ! میں تو ایسی ویسی عورت نہیں ہوں پھر یہ لوگ مجھ سے کیسی امید رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے میرا رشتہ مضبوط رہا اور اللہ تعالیٰ مجھے بچاتا رہا کیونکہ میری نیت صاف اور ایمان پختہ رہا اپنے گھروں میں خوبصورت اور باوقار بیویاں رکھنے کے باوجوداکثر مرد بغیر شادی کے غیر عورتوں سے تعلقات کے خواہاں رہتے ہیں۔ ایسے تمام مردوں سے میری گزارش ہے کہ خوفِ خدا کریں اور عورتوں کو نہ بہکائیں کہ اس کی بڑی سخت وعید ہے اور عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ثابت قدم رہیں۔ ذکر اور نماز میں کبھی غفلت نہ کریں کہ یہ انسان کا اللہ سے رشتہ مضبوط رکھتی ہے۔ ذکر کرنے والا اپنے دشمنوں سے اس طرح محفوظ رہتا ہے جس طرح ایک تیز رفتار گھڑسوار اپنے دشمنوں سے دور اللہ کی پناہ میں چلا جاتا ہے اور اس کے مضبوط حصار میں آ جاتا ہے۔ یہ میری زندگی کا ذاتی تجربہ ہے کہ بڑے سے بڑے لالچ کو ٹھکرا کر جب اپنی زندگی کو اس ذات کی مرضی کے تابع بنایا تو اس ذات نے ایسے ایسے فائدے پہنچائے کہ حقیربندی شرمندہ ہے کہ اس گنہگار پر اتنے احسان۔ مگر مجھے تو حدیث قدسی کے وہ الفاظ کبھی نہیں بھولے جس کا مفہوم یہ ہے۔
”اے بندے اک چاہت تیری ہے اور اک چاہت میری ہے۔ اگر تو چلے گا میری چاہت کے موافق تو میں دوں گا تجھ کو وہ بھی جو تیری چاہت ہے اور اگر تو اس کیخلاف چلے گا تو میں دورکر دوں گا تجھ کو اس سے جو تیری چاہت ہے پھر ہوگا تو وہی جو میری چاہت ہے۔“ اللہ تعالیٰ تمام مرد و خواتین کو نماز ذکر کی پابندی کی توفیق دے تاکہ ہم سب دنیاوی و آخروی نعمتوں سے مالا مال ہو سکیں۔
ذرا سوچیے؟ (مخدوم شیر عالم سحالی، ملتان)
بعض اوقات برے سے برے دو انسان تمام زندگی ایک دوسرے کے ساتھ نبھا لیتے ہیں۔ اگر تقدیر میں جدائی لکھی ہو تو معمولی سی بات چنگاری بن کر گھر کو آگ لگا دیتی ہے۔ دو اچھے انسان بھی ایک دوسرے سے راہ بدل لیتے ہیں۔ لیکن اس طوفان کے تھپیڑے ساری عمر وہ معصوم بچے سہتے ہیں جو ماں باپ کی نادانیوں کی وجہ سے فٹ بال بن جاتے ہیں جسے جوان ہونے پر زمانہ جب چاہے ٹھوکر مار دیتا ہے۔ یہ بچے بہت حساس ہوتے ہیں۔ اگر اللہ نہ کرے کسی خاندان کے اوپر تقدیر یہ دور مسلط کر بھی دے تو ماں باپ کو چاہیے کہ عقلمندی سے کام لیتے ہوئے بچوں کو ایک دوسرے کے خلاف نہ کریں۔ اگر بچپن سے ماں نے باپ کے خلاف کیا تو ماں کو مظلوم سمجھتے ہوئے مخالف سمت میں چل پڑیں گے۔ باپ سے نفرت کریں گے لیکن آگے چل کر یہی نفرت ان کو ہر رشتے کے ساتھ منفی انداز میں جینے کا سبق دے گی۔ کوئی رشتہ بھی وہ مثبت طریقے سے نہیں نبھائیں گے۔ باپ کو چاہیے کہ بچوںکو ماں سے نہ چھینے۔ وہ اتنی محبت انہیں نہیں دے سکتا جتنی محبت ان سے ماں کرتی ہے۔ ماں کا حق دیکھتے ہوئے اگر عورت نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے تو بچوں کیلئے ماں کے حق میں دستبردار ہو جائے۔ ماں پھر ماں ہوتی ہے۔ ہاں جو خرچ عدالت مقرر کرے وہ ضرور ادا کرتا رہے اس طرح وہ مطمئن زندگی گزارے گا۔ اب عورت کا فرض ہے کہ باپ کتنا برا ہی کیوں نہ ہو، وہ بچے کے دل میں باپ کی نفرت نہ ڈالے۔ بعض عورتیں اپنے بچوں کو باپ سے ملنے نہیں دیتیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ ہم انتقام لے رہی ہیں حالانکہ قدرت ان سے انتقام لے رہی ہوتی ہے۔ جس شخص سے تم نفرت کرتی ہو اس کے بچے تم پال رہی ہو کیا یہ قدرت کا انعام ہے یا انتقام؟ بچوں والی عورتوں کو معمولی معمولی باتوں پرطلاق کا نہیں سوچنا چاہیے۔ جو مرد طلاق دینے کا سوچتے ہیں وہ بھی بچوں کیلئے صبر کا مظاہرہ کریں۔ وقت بہت بڑا مرہم ہے وقت کے ساتھ ساتھ بڑے سے بڑے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔
خدا کیلئے بچوں کو ملنے دیں۔ آہستہ آہستہ بچوں کو خود بخود محبت ہو جائے گی۔ وہ باپ کی شفقت کی کمی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اگر باپ کے پاس بچے ہیں اسے چاہیے کہ وہ ماں کے پاس بھیجے اور انہیں کہے کہ ماں تمہاری جنت ہے ۔ اناپرست ایک دوسرے پر الزام تھوپنے کی وجہ سے قطع رحمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر بچپن میں آپ بچوں کو والدین کے خلاف کریں گے تو ان کی جوانی آپ سے نہیں سنبھلے گی۔ میاں بیوی چاہے ساتھ نہ نبھائیں مگر خونی رشتے توڑنے سے اس دنیا میں مکافات ِعمل شروع ہو جاتا ہے کیونکہ قدرت نے بچوں کو سنبھالنے کے لیے دو بندوں کو مقرر کیا ہے، ایک ماں اور ایک باپ۔ بکھری ہوئی فیملی کے بچوں کو دونوں سے ملتے رہنا چاہیے کیونکہ وہ دوسرے عام بچوں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ بچوں کو والدین سے ملنے دینے میں نانا نانی یا دادی کا اہم کردار ہوتا ہے۔ ان بزرگوں کو یہ پتہ نہیں کس وقت سانس ختم ہو جائے تو بچے قطع رحمی کی سزا تمام زندگی بھگتیں گے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں